آخرت کی تکلیف
عید کی آمد آمد تھی۔دونوں صاجزادیاں
اپنے شفیق باپ کے پاس آئیں اور بولیں”ابا حضور عید کا دن قریب آرہا ہے ہمارے پاس پہننے کے لیے کوئی نیا جوڑا نہیں ہے۔ہمارے پاس جتنے کپڑے ہیں وہ سب خراب اور پیوند زدہ ہیں۔اس عید پر ہمیں بھی نئے کپڑے بنوادیں۔تاکہ ہم بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ عید خوشی سے منا سکیں“ باپ نے بیٹیوں کی بات سنی ایک لمحے کے لیے سر جھکا لیا۔چاروں طرف خاموشی پھیل گئی تھی۔مہربان باپ دیر تک سرجھکائے کچھ سوچتا رہا پھر اپنی بچیوں سے مخاطب ہوا”میری بچیو! جو کپڑے تم نے پہن رکھے ہیں ۔انھیں دھو لو اور عید کے روز یہی کپڑے پہن لینا۔”نہیں ،بابا جان ہمیں نئے کپڑے بنوا کر دیں۔عید پر سب نئے کپڑے پہنتے ہیں“ ۔دونوں صاجزادیوں کا اصرار بڑھ گیا تھا۔وہ باپ جس نے کبھی اپنی پیاری اولاد کی کوئی بات رد نہ کی تھی،شفقت بھرے لہجے میں بولا”میری شہزادیو! عید کا دن اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا دن ہے۔اس دن نئے کپڑے پہننا فرض تو نہیں“۔لیکن صاجزادیاں تھیں کہ ضد کیے جا رہی تھیں۔جب دونوں کی ضد اور اصرار حد سے بڑ ھ گیااور باپ نے کوئی جواب نہ دیا تو،صاجزادیوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔صاجزادیاں روتے ہوئے باپ سے لپٹ گئیں۔باپ تو پھر باپ تھا آخر کہاں تک برداشت کرتا۔۔۔باپ بھی کون وقت کا خلیفہ جی ہاں امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزجن کی امارت کی گواہی مدینے کی گلیاں دیا کرتی تھیں۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر بنائے گئے، تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر وسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لادکر مدینہ منورہ بھیجے گئے، جسم اس قدر تروتازہ تھا کہ ازار بند پیٹ کے پٹوں میں غائب ہوجاتا تھا، خوبصورت لباسِ وعطریات کے بے حد شوقین تھے، نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو دوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے دوبارہ نہیں دیکھتے تھے، خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے، کہنے والوں نے کہا”کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز تھے “آپ جس طرف سے گزرتے تھے گلیاں اور بازار خوشبو میں نہاجاتے؛ لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے، آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کو واپس کردیں اور فرش، لباس، عطریات، سازوسامان، محلات، لونڈی وغلام اور سواریاں سب بیچ دیے،اور قیمت بیت المال میں داخل کردی، آپ کے پاس صرف ایک جوڑا رہتاتھا جب وہ میلا ہوتا، اسی کو دھوکرپہن لیتے تھے۔خلیفہ وقت اپنی صاجزادیوں کے آنسو برداشت نہ کر پائے،دل بھر آیا۔بیت المال کے نگران کو بلاوا بھیجا گیا۔خلیفہ کہنے لگے”مجھے ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ چاہیے“نگران نے عرض کیا ”کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ پیشگی تنخواہ وصول کر لینے کے بعد ایک ماہ تک زندہ رہیں گے“۔نگران کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور پھر اپنی پیاری بیٹیوں سے مخاطب ہوئے”اللہ اور اس کے رسول ﷺکی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کر دو۔کیونکہ ایسے لوگوں سے اللہ راضی ہوتا ہے۔بے شک ایسے لوگ ہی جنت کے مستحق ہیں“۔اس طرح یہ بات ختم ہوگئی اور آپ ریاست کے امور دیکھنے چلے گئے۔حکومتی معاملات سے فارغ ہو کرواپس تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کی دونوں شہزادیوں نے منہ پر سختی سے ہاتھ جما رکھے ہیں۔آپ کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔اس لیے دونوں نے کچے پیاز کھاکر اپنی پیاز مٹائی ہے۔پیاز کی بو چھپانے کے لیے ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے ہیں۔شفیق باپ کو بچیوں کا ایثار تڑپائے بغیر نہ رہ سکا۔آنکھیں تم آلود ہو گئیں،فرمایا”میں خلیفہ وقت ہوں میرے لئے یہ کام مشکل نہیں کہ تمہارا دسترخوان لذیذ کھانوں سے بھر دوں۔مگر کیا تم پسند کرو گی کہ ان دنیاوی نعمتوں کے بدلے میں تمہاراباپ دوزخ میں ڈال دیا جائے“۔یہ الفاظ سن کر شہزادیوں کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔لیکن ! ان کا ایک ایک آنسو پکار رہا تھاکہ نہیں۔۔۔نہیں۔۔ہمیں وہ راحتیں نہیں چاہئیں جن کے بدلے ہمارا باپ آخرت کی تکلیف میں مبتلا ہو“۔تو کہیںآ پ بھی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے والدین کو آخرت کی تکلیف کی طرف تو نہیں لے کر جارہے۔۔۔۔؟
No comments:
Post a Comment