Tuesday 14 October 2014

تربیت اولاد کیسے؟ رفیع اللہ فاروقی



بچوں پر کل محنت اٹھارہ سال کی ہے، وہ آپکی زبان سے زیادہ آپ کے اعمال سے اثر قبول کرتے ہیں، آپ انہیں کسی کام سے کتنا ہی کیوں نہ منع کر لیں اگر آپ خود اپنی اس نصیحت پر عمل کرنے والے نہیں تو آپ کا بچہ کبھی بھی اس سے باز نہیں آئیگا، اپنی والاد کے لئے آپ کو خود سولی چڑھنا پڑتا ہے، عام طور پر ماں شفیق ہوتی ہے، لیکن کچھ سخت گیر مائیں بھی ہوتی ہیں، اگر آپکی اہلیہ ایسی ہیں تو پھر آپ کو ہر حال میں نرم رہنا پڑیگا ورنہ اولاد باغی ہو جاتی ہے، گھر سے بھاگنے والے بچے ایسے ہی والدین کے ہوتے ہیں، اگر دونوں گرم مزاج ہوں تو اولاد باغی ہوجاتی ہے اور دونوں نرم مزاج ہوں تو اولاد سر چڑھ جاتی ہے، توازن ہر حال میں لازم ہے، بچے کے اوقات مقرر کردیں اور اس ٹائم ٹیبل سے اسے کسی صورت نہ ہلنے دیں، میرے بچوں پر اٹھارہ سال کی عمر تک یہ پابندی رہی کہ مغرب کی اذان ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ گھر میں داخل ہوچکے ہوتے تھے،( وقاص اب بھی اس پابندی سے گزر رہا ہے)وہ جانتے تھے کہ غلطی نظر انداز نہیں ہوتی سو ایسا کبھی نہ ہوا کہ مغرب کی اذان ختم ہو گئی ہو اور میرا بچہ گھر کے دروازے سے ایک قدم کے فاصلے پر بھی رہ گیا ہو، اپنے بچے کی کسی بھی غلطی پر یہ نہ سوچئے کہ "چلو خیرہے" آپکی یہ سوچ آپکے بچے کے لئے تباہ کن ہے، اسے اس کی ہر غلطی پر رد عمل ملنا چاہئے چاہے آپکی سرد نگاہوں کا ہی کیوں نہ ہو، اگر ضرورت ہو تو بچے کو چھ ماہ میں ایک ہی بار ماریں اس سے زیادہ ہرگز نہیں، رات کا کھانا ہر حال میں پوری فیملی ساتھ کھائے، اسے فجر کی سنتوں کی طرح لازم سمجھ لیں، اپنے بچوں کے ساتھ گپ شپ لگایا کریں، جب آپ ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنے خیالات اور احساسات آپ سے شیئر کرنے لگتے ہیں اور از خود آپ ہی کو اپنا مشیر اعلیٰ مقرر کر لیتے ہیں، خاص طور پر بارہ سے پندرہ سال تک کے تین سالوں میں انہیں اپنے بہت زیادہ قریب رکھیں، یہ وہ عمر ہے جب شعور ان میں بہت بڑی تبدیلی رونما کر رہا ہوتا ہے، ان پر رنگ و نور کی ایک نئی دنیا منکشف ہو رہی ہوتی ہے اس موقعے پر انہیں مضبوط رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، آپ بس انہیں اپنے قریب رکھیں، رہنمائی وہ خود مانگینگے۔ جب آپ اپنے بچے کی کوئی غلطی پکڑ لیں یا آپکو کوئی شبہ ہوجائے اور آپ اسے یہ کہیں کہ "سچ سچ بتاؤ !" تو پھر سچ بتانے کی صورت میں اسے ہرگز ہرگز نہ ماریئے، اسے یہ احساس کبھی بھی نہیں ملنا چاہئے کہ سچ مہنگا پڑتا ہے، اگر آپ بچوں کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جائیں کہ سچ کا نتیجہ سزا نہیں عافیت اور امن کی صورت ظاہر ہوتا ہے تو وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے، اگر سکول اور محلے سے آپکے بچوں کی شکایت نہیں آ رہی تو اللہ کا شکر اداء کیجئے کہ اسنے آپ کو صالح اولاد سے نوازا ہے، میں نے آج تک اپنی اولاد کے موبائل فون چیک نہیں کئے یہاں تک کہ خفیہ طور پر بھی نہیں، میرا احساس ہے کہ اگر میں نے ایسا کر دیا تو میرے اور انکے مابین قائم اعتماد کی پوری عمارت دھڑام سے گر جائیگی، اٹھارہ سال کی سخت محنت کے بعد انیسویں سال میں داخل ہوتے ہی انہیں کھلا چھوڑ دیجئے ، اب وہ نہیں بگڑیگا، جو مزاج آپ اسکا بنانا چاہتے تھے بن چکا ۔ یاد رکھئے اگر آپ کا بچہ ٹھیک نہیں ہے لوگ اس سے تکلیف میں ہیں تو قصور اسکا نہیں آپ کا ہے، سزا دینی ہے تو خود کو دیجئے۔

No comments:

Post a Comment