آخرت کی تکلیف
کہیں ہماری خواہشات کسی کے لیے تکلیف کا باعث تو نہیں بن رہیں۔۔۔۔! یہ الفاظ سن کر شہزادیوں کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔لیکن ! ان کا ایک ایک آنسو پکار رہا تھاکہ نہیں۔۔۔نہیں۔۔ہمیں وہ راحتیں نہیں چاہئیں
عید کی آمد آمد تھی۔دونوں صاجزادیاں
اپنے شفیق باپ کے پاس آئیں اور بولیں”ابا حضور عید کا دن قریب آرہا ہے ہمارے پاس پہننے کے لیے کوئی نیا جوڑا نہیں ہے۔ہمارے پاس جتنے کپڑے ہیں وہ سب خراب اور پیوند زدہ ہیں۔اس عید پر ہمیں بھی نئے کپڑے بنوادیں۔تاکہ ہم بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ عید خوشی سے منا سکیں“ باپ نے بیٹیوں کی بات سنی ایک لمحے کے لیے سر جھکا لیا۔چاروں طرف خاموشی پھیل گئی تھی۔مہربان باپ دیر تک سرجھکائے کچھ سوچتا رہا پھر اپنی بچیوں سے مخاطب ہوا”میری بچیو! جو کپڑے تم نے پہن رکھے ہیں ۔انھیں دھو لو اور عید کے روز یہی کپڑے پہن لینا۔”نہیں ،بابا جان ہمیں نئے کپڑے بنوا کر دیں۔عید پر سب نئے کپڑے پہنتے ہیں“ ۔دونوں صاجزادیوں کا اصرار بڑھ گیا تھا۔وہ باپ جس نے کبھی اپنی پیاری اولاد کی کوئی بات رد نہ کی تھی،شفقت بھرے لہجے میں بولا”میری شہزادیو! عید کا دن اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی دی گئی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا دن ہے۔اس دن نئے کپڑے پہننا فرض تو نہیں“۔لیکن صاجزادیاں تھیں کہ ضد کیے جا رہی تھیں۔جب دونوں کی ضد اور اصرار حد سے بڑ ھ گیااور باپ نے کوئی جواب نہ دیا تو،صاجزادیوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔صاجزادیاں روتے ہوئے باپ سے لپٹ گئیں۔باپ تو پھر باپ تھا آخر کہاں تک برداشت کرتا۔۔۔باپ بھی کون وقت کا خلیفہ جی ہاں امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزجن کی امارت کی گواہی مدینے کی گلیاں دیا کرتی تھیں۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر بنائے گئے، تو اس وقت ان کا ذاتی سازوسامان اس قدر وسیع اور عظیم تھا کہ صرف اسی سے پورے تیس اونٹ لادکر مدینہ منورہ بھیجے گئے، جسم اس قدر تروتازہ تھا کہ ازار بند پیٹ کے پٹوں میں غائب ہوجاتا تھا، خوبصورت لباسِ وعطریات کے بے حد شوقین تھے، نفاست پسندی کا یہ عالم تھا کہ جس کپڑے کو دوسرے لوگ آپ کے جسم پر ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے دوبارہ نہیں دیکھتے تھے، خوشبو کے لیے مشک اور عنبر استعمال کرتے تھے، کہنے والوں نے کہا”کہ ہماری سلطنت میں سب سے زیادہ خوش لباس، معطر اور خوش خرام شخص عمر بن عبدالعزیز تھے “آپ جس طرف سے گزرتے تھے گلیاں اور بازار خوشبو میں نہاجاتے؛ لیکن جس دن خلیفہ اسلام بنائے گئے، آپ نے ساری جاگیریں اصل مالکوں کو واپس کردیں اور فرش، لباس، عطریات، سازوسامان، محلات، لونڈی وغلام اور سواریاں سب بیچ دیے،اور قیمت بیت المال میں داخل کردی، آپ کے پاس صرف ایک جوڑا رہتاتھا جب وہ میلا ہوتا، اسی کو دھوکرپہن لیتے تھے۔خلیفہ وقت اپنی صاجزادیوں کے آنسو برداشت نہ کر پائے،دل بھر آیا۔بیت المال کے نگران کو بلاوا بھیجا گیا۔خلیفہ کہنے لگے”مجھے ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ چاہیے“نگران نے عرض کیا ”کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ پیشگی تنخواہ وصول کر لینے کے بعد ایک ماہ تک زندہ رہیں گے“۔نگران کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور پھر اپنی پیاری بیٹیوں سے مخاطب ہوئے”اللہ اور اس کے رسول ﷺکی خاطر اپنی خواہشات کو قربان کر دو۔کیونکہ ایسے لوگوں سے اللہ راضی ہوتا ہے۔بے شک ایسے لوگ ہی جنت کے مستحق ہیں“۔اس طرح یہ بات ختم ہوگئی اور آپ ریاست کے امور دیکھنے چلے گئے۔حکومتی معاملات سے فارغ ہو کرواپس تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کی دونوں شہزادیوں نے منہ پر سختی سے ہاتھ جما رکھے ہیں۔آپ کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔اس لیے دونوں نے کچے پیاز کھاکر اپنی پیاز مٹائی ہے۔پیاز کی بو چھپانے کے لیے ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے ہیں۔شفیق باپ کو بچیوں کا ایثار تڑپائے بغیر نہ رہ سکا۔آنکھیں تم آلود ہو گئیں،فرمایا”میں خلیفہ وقت ہوں میرے لئے یہ کام مشکل نہیں کہ تمہارا دسترخوان لذیذ کھانوں سے بھر دوں۔مگر کیا تم پسند کرو گی کہ ان دنیاوی نعمتوں کے بدلے میں تمہاراباپ دوزخ میں ڈال دیا جائے“۔یہ الفاظ سن کر شہزادیوں کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔لیکن ! ان کا ایک ایک آنسو پکار رہا تھاکہ نہیں۔۔۔نہیں۔۔ہمیں وہ راحتیں نہیں چاہئیں جن کے بدلے ہمارا باپ آخرت کی تکلیف میں مبتلا ہو“۔تو کہیںآ پ بھی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے والدین کو آخرت کی تکلیف کی طرف تو نہیں لے کر جارہے۔۔۔۔؟
تبدیلی ۔۔۔۔
ایک خوشگوار تبدیلی جسے سب نے محسوس کیا تھا۔۔۔۔
یہ جون کی تپتی دوپہر تھی
۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ حمزہ کا حلق جیسے سوکھ گیاتھا۔ بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ایسے میں حمزہ کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں۔ آج تو میرا روزہ ہے وہ بھی پہلا۔نہیں میں ایسانہیں کرسکتا۔ ہاں توکیا ہوا ویسے بھی یہاں کون دیکھ رہاہے ؟ لفظ گڈ مڈ ہونے لگے تھے …ہاں …ہاں …نہیں …اللّٰہ جی تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ دادی اماں اپنے کمرے میں عبادت کررہی ہیں۔ امی اور ابو ویسے گھر پر نہیں ہیں۔ فاریہ ابھی بہت چھوٹی ہے اس کو کیا پتا …اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتے ہی حمزہ سوچ میں پڑ گیا ۔ فاریہ کو کیا پتا روزہ کیاہوتاہے ۔ اب حمزہ کے دل ودماغ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔ فریج کا دروازہ آدھا کھلا ہواتھا۔ فریج میں جو قسم قسم کے مشروبات اور لذیذ آم صاف نظر آ رہے تھے ۔ یہ ٹھنڈے مشروب سوکھے حلق کو سیراب کرسکتے تھے۔ اللّٰہ جی ناراض ہوں گے ۔ آخر اللّٰہ جی کی ناراضگی کے خوف کا خیال غالب آنے لگاتھا۔
حمزہ نے فریج کا دروازہ بند کیا۔ اب حمزہ اپنے کمرے میں آگیاتھا۔ ابھی تک حمزہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھا۔ اپنی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے ٹی وی ریموٹ پکڑا اور چینل تبدیل کرنے لگا ۔ ایک چینل پر جیسے اس کی انگلیاں ریموٹ پر جم گئی تھیں۔ یہ چینل صومالیہ پر رپورٹ دکھا رہاتھا۔ جس میں صومالیہ کے بچوں کو جب اناج کاایک پیکٹ دیا جاتا تو سب اس پر جھپٹ پڑتے ۔ یہ پیکٹ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے پھینکے جارہے تھے۔ حمزہ کو یاد آگیاکہ ایک دن جب اس نے پیزا آرڈر کیاتھاتو پیزا لے کر آنے والا لڑکا غلطی سے دوسرا پیزا لے آیا تھا۔ حمزہ نے اس لڑکے کو برا بھلا کہاتھا ، پیزا لے کر اس لڑکے کے سامنے پھینک دیاتھا۔ حمزہ کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھومنے لگا۔ جس میں اس نے کیفے ٹیریا سے فروٹ چاٹ لی۔ اسے جب یہ پسند نہ آئی تو اس نے اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ہوئے کیفے کے چھوٹے کوبلا کر ساری فروٹ چاٹ اس کے سامنے ضائع کردی تھی ۔ حمزہ کے ماتھے پر نمی آگئی تھی ۔ جیسے کسی برے خواب نے اس کی آنکھیں کھول دی ہوں ۔ حمزہ نے گاڑی کی چابی پکڑی اور رضوان کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ رضوان اور حمزہ کلاس فیلو بھی تھے ۔ رضوان کا گھر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔وہ جب بھی فارغ ہوتا رضوان کے گھر چلا جاتا تھا۔ حمزہ جب رضوان کے گھر پہنچا ۔ گھر کے لان میں سفید داڑھی والے باباجی کام کررہے تھے۔ بابا جی رضوان گھر پر ہے ؟ ”نہیں صاحب جی گھر پر تو کوئی نہیں۔ “ چلیں ٹھیک ہے۔ حمزہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھاکہ کیا دیکھتاہے کہ بابا جی کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔یہ بابا جی عرصہ دراز سے رضوان کے گھر مالی تھے۔ رضوان کے گھر کے پودوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔ حمزہ نے کبھی بھی کام کرنے والوں میں کوئی دلچسپی نہ لی تھی ۔ با با جی کیا آپ نے روزہ رکھاہے ؟ حمزہ نے کانپتے ہاتھوں سے پودوں کو درست کرتے بابا جی سے سوال کیا “ جی بیٹا جی الحمدللّٰہ روزہ سے ہوں۔ بابا جی آپ روزہ کے ساتھ سخت محنت کرتے ہیں ۔ آپ کو بھوک اور پیاس نہیں لگتی؟ بیٹا لگتی توہے لیکن جس اللّٰہ کے لیے میں یہ تکلیف برداشت کرتاہوں۔ وہ اب پروردگار صبر بھی دیتاہے۔ بیٹا اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”روزہ خاص میرے لیے ہے اس کا اجر بھی میں دوں گا۔ “ میرا رب جس کام کا اجر دینے کا خود کہہ رہاتو بیٹا میں دنیا کے کاموں کے لیے وہ کیوں چھوڑ دوں ۔ “ اچھا باباجی اب میں چلتاہوں ۔ حمزہ گھر پہنچا اس کے امی اور ابو بھی آچکے تھے۔ ابو جی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔ جی میرے لال ، حمزہ کے ابو نے پیار بھرے لہجے میں بیٹے کو جواب دیا ۔ ابو اگر ہمارا پیٹ تھوڑے سے کھانے سے بھر سکتا، تو ہم کیوں مختلف قسم کے کھانے بناتے ہیں۔ کیا مطلب ؟ میں کچھ سمجھا نہیں بیٹا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ … ابو جی میرا مطلب ہے ہمارے گھر میں روز وافر مقدار میں کئی قسم کے کھانے پکتے ہیں جبکہ ہم سب تو اس سب میں تھوڑا سا کھاتے ہیں باقی ضائع ہوجاتاہے ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ہم اپنی خوشیوں میں لوگوں کو شامل کرلیں۔ اس طرح سے کھانا بھی ضائع نہیں ہوگا ۔ اللّٰہ جی ثواب بھی دیں گے ۔ باورچی ٹیبل پر افطاری کا سامان لگانا شروع کر چکا تھا۔ آج سیٹھ خاور اپنے بیٹے حمزہ کی باتیں سن کر خوش ہو رہے تھے ۔ہاں کیوں نہیں بیٹا !اچھا مسلمان تو وہی ہے جو اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے۔ آج ایک معصوم بچے نے پھر سے سیٹھ خاور کو بیدار کر دیا تھا۔سیٹھ خاور اور ان کابیٹا ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ نہر کناے اس وسیع کوٹھی کے لان میں چٹائیاں بچھائی جانے لگیں ۔ کوٹھی کے تمام نوکر اور سیٹھ خاور اکٹھے بیٹھ کر روزہ کے ہونے کے لیے انتظار کرنے لگے ۔ کچھ لمحوں بعد قریبی مسجد سے روزہ افطارکی دعا کی آواز آنے لگی ۔ ہاتھ دعا کے لیے آسمان کی طرف بلند ہونے لگے۔ آج حمزہ کی آنکھوں میں نمی بھی تھی ۔ مگر یہ تبدیلی کی نمی تھی ۔ جو سیٹھ خاور نے بھی محسوس کی تھی ۔